Maqsad e Hayat awr Haqiqat e Dunya - Kamyab Z ..
Oct 15 - 2023
اللہ اور بندے کے درمیان رشتہ اور تعلق رحمت و محبت پر اُستوار ہونا چاہیئے، کیونکہ اللہ ربّ العزت نے ہمیشہ ہمیں اپنے رحمٰن و رحیم کے صفاتی ناموں کے ساتھ پکارنے کو کہا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے خود اپنے کلام مجید میں فرمایا ہے کہ اُس کی رحمت ہر شے پر غالب ہے اور ہر چیز پر وُسعت رکھتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ.
(الاعراف، 7: 156)
’’اور میری رحمت ہر چیز پر وُسعت رکھتی ہے۔‘‘
اِس لئے ہمیں یہ پختہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ وہ دن سب سے بہترین دن ہوگا جب ہم اپنے ربّ سے ملیں گے۔ کیونکہ جب ہم اِس دُنیا سےکوچ کریں گے تو ہم اَرحم الرّاحمین کے ہاتھوں میں ہوں گے، وہ ربِ رحمٰن جو ہمارے ساتھ ہماری ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَللهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا.
(صحيح البخاري، 5: 2235، الرقم: 5653)
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی کوئی ماں اپنے بچے پر مہربان ہوسکتی ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک اور مقام پر فرمایا کہ
جَعَلَ اللهُ الرَّحْمَةَ فِي مِائَةِ جُزْءٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ جُزْءًا، وَأَنْزَلَ فِي الْأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا، فَمِنْ ذَلِكَ الْجُزْءِ يَتَرَاحَمُ الْخَلقُ حَتَّى تَرْفَعَ الْفَرَسُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا، خَشْيَةَ أَنْ تُصِيْبَهُ.
(صحيح البخاري، 5: 2236، الرقم: 5654)
’’اللہ تعالیٰ نے رحمت کے 100 حصے بنائے ہیں، جن میں سے اُس نے 99 حصے اپنے پاس رکھ لیے اور ایک حصہ زمین پر نازل کیا۔ ساری مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے، یہاں تک کہ گھوڑا جو اپنے بچے کے اوپر سے اپنا پاؤں اُٹھاتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے، وہ بھی رحمت کے اسی ایک حصے کے باعث ہے۔‘‘
جیسے تمام اِنسانوں کی شکل و صورت اور ذِہنی و جسمانی صلاحیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، اِسی طرح اُن کے جذبات و اِحساسات اور کیفیات بھی ایک دُوسرے سے الگ ہوتی ہیں۔ آخرت میں اللہ ربّ العزت ہر شخص کے ساتھ رحمت کا برتاؤ کرے گا اور اُس کی ذِہنی و جسمانی صلاحیتوں، جذبات و اِحساسات اور کیفیات کے تناظر میں ہی اُس سے حساب لے گا، اور کسی کو ایسے کسی معاملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا جس کی وہ زمینی زندگی کے دوران صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ ہر شخص اپنے زمانے اور خطے کی اِیجادات اور سہولیات کے تناظر میں اپنے اَعمال کا جوابدہ ہوگا۔ تاہم اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا مؤمنین کا نہیں بلکہ کافروں کا وطیرہ ہے اور اللہ ربّ العزت نے اپنے گناہگار بندوں کو اپنی رحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.
(الزُمر، 39: 53)
’’آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
بیسویں صدی میں لکھی گئی ’’موت کا منظر‘‘ اور ’’موت کا تماشا‘‘ جیسی کتابوں نے لوگوں کے سامنے خالقِ کائنات کا ایسا خوفناک چہرہ رکھا جس سے وہ شعوری و لاشعوری طور پر اُس کی رحمت سے مایوس ہوتے چلے گئے اور اُسے صرف عذاب دینے والا خدا سمجھنے لگے۔ ایسی صورت میں ایک کم تنخواہ والا لائن مین یا پولیس والا خود کو حلال روزی تک کس اُمید پہ محدود رکھتا!! چنانچہ اُس نے سوچا کہ 99 فیصد اچھے کاموں کے باوُجود جب خدا ایک بُرے کام کی وجہ سے مجھے عذاب میں ہی ڈالے گا تو ساری زندگی حرام روزی سے بچنے کی زحمت کیوں اُٹھاتا پھروں! موت کے بعد جب عذاب میں ہی جلنا ہے تو کم از کم اِس دُنیوی زندگی میں اپنی عمر کے بقیہ سال تو مہنگائی اور مفلسی کے عذاب سے بچ کر گزار لوں۔ چنانچہ وہ دُوسروں کی حق تلفی کو اپنی مجبوری کے تحت جائز قرار دے کر معاشرے کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالنے گا۔ وہ ربّ جو کہتا ہے کہ اُس کی رحمت اُس کے غضب پر حاوِی ہے، ہم اُسے صرف عذاب دینے والا ہی بنا کر پیش کریں گے تو نتیجہ یہی ہوگا۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے عام معاملات میں بھی لوگوں کو ڈرانے، خوفزدہ کرنے اور اُن کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے منع فرمایا اور لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے اور اُنہیں خوش کرنے کو کارِ ثواب قرار دیا۔ ارشاد فرمایا:
يَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، وَبَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا.
(صحىح البخاري، 1: 38، رقم: 69)
’’آسانياں پیدا کرو اور تنگیاں پیدا نہ کرو، لوگوں کو خوشخبری دو اور نفرت کرنے والا بیزار نہ بناؤ۔‘‘
چنانچہ دین کی تبلیغ کے معاملے میں بھی ہمیں یہی اُصول مدِنظر رکھنا چاہیئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اِس حکم کے باوُجود اگر ہم دین میں سختی اور جبر والا معاملہ کریں تو لامحالہ لوگ دین سے دُور بھاگیں گے۔ جب ہم اللہ پر اِیمان رکھنے والے اور اُس کے اَحکامات پر حتی الاِمکان عمل کرنے والے بندے ہیں تو یقیناً ہم اُس کے ساتھ دوستی کے خواہاں ہیں اور اُس کے دُشمنوں سے نالاں ہیں۔ ایسے بندوں کو ڈرانے کیلئے اُن کے سامنے خدا کو قہر برسانے والا بنا کر پیش کرنا دراصل ایک زبردستی کے خوف میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔
ایک حدیثِ قدسی میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے کہ:
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي، أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً.
(صحيح البخاري، 6: 2694، الرقم: 6970)
’’ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکر خفی) کرے تو میں بھی اپنی (شایانِ شان) اپنے دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (یعنی ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت (یعنی فرشتوں) میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
ایسا ربّ جس کی رحمت اپنے بندوں کو بخشنے کیلئے بے قرار ہو اُسے صرف عذاب دینے والے کے رُوپ میں پیش کرنا دین کی خدمت نہیں بلکہ لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے مترادف ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنْ يُحَاسِبُ الْخَلْقَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ: اَللهُ. قَالَ: اَللهُ قَالَ: اَللهُ. قَالَ: نَجَوْنَا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ. قَالَ: وَكَيْفَ يَا أَعْرَابِيُّ قَالَ: لِأَنَّ الْكَرِيْمَ إِذَا قَدَرَ عَفَا.
(البيهقي في شعب الإيمان، 1: 247، الرقم: 262)
’’یارسول اللہ! روزِ قیامت مخلوق سے کون حساب لے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ۔ وہ کہنے لگا: کیا واقعی اللہ (خود حساب لے گا)؟ فرمایا: ہاں! خود اللہ حساب لے گا۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا: رب کعبہ کی قسم! پھر تو ہم نجات پا گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اعرابی! وہ کیسے؟ اس نے کہا: وہ اس طرح کہ (اللہ سب سے کریم ہے اور) جب کوئی کریم (شخص) کسی پر غالب آتا ہے تو وہ اُسے معاف کر دیتا ہے۔‘‘
ہمیں یہ اِیمان رکھنا چاہیے کہ جو خدا ہر اچھے کام کا آغاز بسم اللہ کے طور پر رحمٰن و رحیم کی صفات سے یاد کرکے شروع کرنے کا حکم دے، ایسا کیونکر ممکن ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اپنی رحمت کی بجائے غضب سے پیش آئے!حالانکہ وہ خود فرماتا ہے کہ اُس کی رحمت اُس کے غضب پر حاوِی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ لَمَّا قَضَى الْخَلْقَ كَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ: إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي.
(صحىح البخاري، 6: 2694، الرقم:6969)
’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے پاس عرش کے اوپر لکھ دیا: بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔‘‘
قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والے اللہ ربّ العزت کے صفاتی ناموں کو سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اللہ ربّ العزت کی کون سی صفت کس مفہوم میں وارِد ہوئی ہے۔ سیاق و سباق ہمیں واضح کرتا ہے کہ خدا صرف اپنے دُشمنوں پر قہر برسانے والا ہے، جبکہ مؤمنین کیلئے سراپا رحمٰن و رحیم ہے۔ قرآنِ مجید میں ہر سورت سے قبل بسم اللہ پڑھتے وقت اللہ ربّ العزت کو ’’الرحمن الرحیم‘‘ کی صفات کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآنِ مجید میں لفظ ’’الرحمن‘‘ 48 مرتبہ اور لفظ ’’الرحیم‘‘ 34 مرتبہ آیا ہے، جبکہ لفظ ’’جبار‘‘ صرف ایک بار اور لفظ ’’قہار‘‘ کل 6 مرتبہ آیا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ خدا نے خود کو کہیں بھی ظالم نہیں کہا۔ اللہ ربّ العزت کا ایک صفاتی نام ’’جبار‘‘ ہے، جس کا معنی مجبور کر دینے والا ہے، نہ کہ ظلم کرنے والا۔ مجبور کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ربّ العزت دُنیا کو جن فطری قوانین پر مبنی نظام کے تحت چلا رہا ہے، ہم مجبور ہیں کہ اُن قوانین کے مطابق چلیں۔ مثال کے طور پر اِنسان مجبور ہے کہ وہ پرندوں کی طرح نہیں اُڑ سکتا، ہاں مگر رب کے طے کردہ قوانین پر عمل کرتے ہوئے جہاز وغیرہ کی مدد سے اُڑ سکتا ہے۔ فطرت کے وہ قوانین جو کلی یا جزوِی طور پر اِنسانی عقل میں آ جاتے ہیں، اِنسان اُنہیں سائنسی قوانین کا نام دے دیتا ہے۔
اللہ ربّ العزت جس طرح اِس دُنیا میں ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اُنہیں کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا، قیامت کے دن بھی وہ اپنے مؤمن بندوں کے ساتھ پردہ پوشی کا رویّہ اپنائے گا اور اُن کے گناہوں کو کسی کے سامنے بےنقاب نہیں کرے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ: عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، وَيَقُولُ: عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَرِّرُهُ، ثُمَّ يَقُولُ: إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ.
(صحيح البخاري، 5: 2254، الرقم: 5722)
’’(روزِ قیامت) تم میں سے ایک شخص اپنے رب سے قریب ہوگا، یہاں تک کہ وہ اسے اپنی رحمت کے سائے میں ڈھانپ لے گا (کہ کوئی اور اِسے دیکھ نہ پائے)۔ پھر فرمائے گا: (اے میرے بندے!) تو نے فلاں فلاں (گناہ کے) کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا: جی ہاں۔ پھر اس سے فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں (گناہ کے) کام کئے؟ وہ کہے گا: جی ہاں! باری تعالیٰ۔ یوں اللہ تعالیٰ اس سے بار بار کہلوا کر اس سے (اس کے گناہوں کا) اقرار کروائے گا۔ پھر فرمائے گا: میں نے دنیا میں تیرے گناہوں کے اوپر پردہ ڈالا، آج میں تیرے لیے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں (تاکہ یہاں بھی تیرا پردہ برقرار رہے)۔‘‘
اللہ کا عذاب صرف مشرکوں اور منافقوں کیلئے ہے۔ اہلِ ایمان پر عذاب نہیں ہوگا۔ قرآنِ مجید میں جابجا مؤمنین کیلئے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اور اللہ ربّ العزت پر اِیمان نہ لانے والوں اور مشرکین کیلئے سخت عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا.
(صحيح البخاري، 3: 1049، الرقم: 2701)
’’اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو شخص شرک نہ کرے وہ اسے عذاب نہ دے۔‘‘
تاہم اُس کیلئےضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی میں شرک اور نِفاق سے بچتے ہوئے اللہ ربّ العزت کے اَحکامات پر عمل کریں اور جسمانی و رُوحانی پاکیزگی کی روِش کو اپنائیں۔ بصورتِ دیگرگناہوں کی کثرت کی صورت میں جنت میں واپسی اُس وقت تک ممکن نہ ہوگی جب تک ہمارے جسم و رُوح پر لگی گناہوں کی کثافتوں کو جہنم کی آگ کے ذریعے جلا کر پاک صاف نہیں کر دیا جاتا۔
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ نے سب سے آخر میں جنت میں جانے والے شخص کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ حَبْوًا، فَيَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: اِذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: اِذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَأْتِيهَا، فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: اِذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا -أَوْ إِنَّ لَكَ عَشَرَةَ أَمْثَالِ الدُّنْيَا، قَالَ: فَيَقُولُ: أَتَسْخَرُ بِي -أَوْ أَتَضْحَكُ بِي- وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ. قَالَ: فَكَانَ يُقَالُ: ذَاكَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً.
(صحيح البخاري، 5: 2402، الرقم: 6202)
’’مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت میں داخل ہوگا۔ وہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں داخل ہوگا تو اُسے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا: اے ربّ! وہ تو بھری ہوئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں چلا جا۔ لہٰذا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ جنت میں جا کر اُسے پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا: اے ربّ! میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا اور جنت میں داخل ہو کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اُس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے، یا فرمایا: تیرے لیے دس دنیاؤں کے برابر حصہ ہے۔ وہ عرض کرے گا: (اے اللہ!) کیا مجھ سے مزاح کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے؟ حالانکہ تو حقیقی مالک ہے۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:) میں نے دیکھا کہ اِس پر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک نظر آنے لگے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے: یہ اہلِ جنت کے سب سے کم درجے والے شخص کا حال ہے۔‘‘
اللہ ربّ العزت کے رحمٰن و رحیم ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ایسی اُمید لگا لے کہ اُس کے غضب سے بےخوف ہوجائے۔ اگر ہم اُس سے رحمت کی اُمید لگا کر گناہ کرنا شروع کر دیں، فرائض کو نظرانداز کر دیں اور اُس کی مخلوق کےساتھ زیادتی کرنا شروع کر دیں تو اُس کی رحمت ہمیں بچانے نہیں آئے گی۔ خدا کے غضب سے لاپرواہی برتنے کا انجام سابقہ قوموں کے واقعات میں جا بجا موجود ہے۔
ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جب مسلمان گناہ کرتا ہے تو اُس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ و اِستغفار کر لے تو اُس کا دل صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ بار بار گناہ کرتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو وہ نقطہ پورے دل میں پھیل جاتا ہے اور پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے اور دل کو عبادت کی لذت محسوس نہیں ہوتی۔ اِس لئے ضروری ہے کہ کسی معمولی گناہ پر بھی اللہ تعالیٰ سے توبہ و اِستغفار لازمی کیا جائے۔
اگر کسی اِنسان سے جذبات کی رَو میں بہہ کر کوئی گناہِ کبیرہ سرزد ہوجائے تو اُسے قطعی طور پر اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اِحساس ہوتے ہی توبہ کیلئے تین اِقدام کرے:
1۔ وہ فوری طور پر شرمسار ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف رُجوع کرکے اُس سے معافی مانگے۔
2۔ وہ اپنے دل میں پختہ اِرادہ کرے کہ آئندہ اُس گناہ کو کبھی نہیں دُہرائے گا۔
3۔ وہ اپنے اُس اِرادے پر مرتے دم تک پختگی کے ساتھ قائم رہے۔
تاہم اگر وہ گناہ حقوق اللہ کی بجائے حقوق العباد سے متعلق ہے تو اللہ سے معافی مانگنے سے پہلے اُس شخص سے معافی مانگنا ضروری ہے، جس کی حق تلفی کی گئی ہو۔ اگر کوئی بندہ اپنے گناہوں کی معافی کیلئے یہ تمام اِقدام بحسن و خوبی نبھاتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ ربّ العزت اُسے معاف نہ فرما دے کہ وہ غفور و رحیم ربّ تو اپنے شرمسار بندوں کو معاف کرنے کیلئے خود بہانے تلاش کرتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے گناہگاروں کو اللہ ربّ العزت کی رحمت سے مایوس ہونے سے بچانے اور اُنہیں توبہ کی طرف مائل کرنے کیلئے فرمایا:
اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ.
(سنن ابن ماجه، 2: 1419، الرقم: 4250)
’’گناہ سے(سچی) توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘
یعنی اگر کوئی گناہگار اللہ تعالیٰ سے سچی پکی توبہ کرلے تو اُس کے گناہ کے تمام اَثرات ختم کر دیئے جاتے ہیں، حتی کہ نامۂ اعمال کا اِندراج بھی مٹا دیا جاتا ہے اور اُس شخص کے جسمانی اَعضاء میں موجود ڈی این اے (DNA) میں سے گناہوں کے تمام ثبوت بھی مٹا دیئے جاتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو ایسی مقبول توبہ (توبۃ النصوح) کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کوئی بندہ گناہ کرے اور پھر کہے: ’’یا اللہ! میرا یہ گناہ معاف فرما دے‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میرے بندے نے گناہ کیا اور اُسے علم ہے کہ اُس کا رب ہے، وہی گناہوں کو بخشتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی کرتا ہے۔‘‘ بندہ پھر دوبارہ وہی گناہ کرکے کہتا ہے: ’’پروردگار! میرا یہ گناہ معاف فرما دے‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میرے بندے نے گناہ کیا اور اُسے علم ہے کہ اُس کا رب ہے، وہی گناہوں کو بخشتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی کرتا ہے۔‘‘ بندہ پھر تیسری بار بھی وہی گناہ کر کے کہتا ہے: ’’پروردگار! میرا یہ گناہ معاف فرما دے‘‘ تو اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے: ’’میرے بندے نے گناہ کیا اور اُسے علم ہے کہ اُس کا رب ہے، وہی گناہوں کو بخشتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی کرتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا، اب جو چاہے عمل کرے۔‘‘
(صحىح مسلم، 4: 2112، رقم: 2758)
اگر کوئی شخص مرتے دم تک اپنے اِرادے پر قائم رہنے کی نیت کے ساتھ کی گئی توبہ کو توڑ بیٹھے تو اُسے چاہیئے کہ مایوس ہونے کی بجائے دوبارہ توبہ کر لے۔ اللہ ربّ العزت کی رحمت بہت وسیع ہے، وہ دوبارہ معاف کر دے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ سوچ کر گناہ کرتا ہے کہ کوئی بات نہیں بعد میں معافی مانگ لوں گا تو ممکن ہے کہ اُسے معافی مانگنے کی مہلت ہی نہ ملے، کیونکہ توبہ نادانی میں کئے گئے گناہ پر ہوتی ہے، منصوبہ بندی کے ساتھ کئے گئے گناہ پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۤءَ بِجَهَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۤـئِکَ یَتُوْبُ اللهُ عَلَیْہِمْ وَکَانَ اللهُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا. وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَلَاالَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ هُمْ کُفَّارٌ اُولٰئِۤکَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاباً اَلِیْماً.
(النساء، 4: 17، 18)
’’اللہ نے صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو نادانی کے باعث برائی کر بیٹھیں پھر جلد ہی توبہ کر لیں پس اللہ ایسے لوگوں پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرمائے گا، اور اللہ بڑے علم بڑی حکمت والا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے توبہ (کی قبولیت) نہیں ہے جو گناہ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کے سامنے موت آ پہنچے تو (اس وقت) کہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں اور نہ ہی ایسے لوگوں کے لیے ہے جو کفر کی حالت پر مریں، ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
منصوبہ بندی کے ساتھ کئے گئے گناہ پر شیطان بندے کو بہکاتا رہتا ہے کہ جلدی کیا ہے! بعد میں معافی مانگ لینا، اور یوں بندہ بہکتا چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ اُس کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے اور اُسے معافی کا موقع ہی نصیب نہیں ہوتا۔